اردو نیوزکالم

صبر

صبر کا معنی رک جانا، ٹھہر جانا، برداشت کرنا اور ثابت قدم رہنا. صبر کی بڑی فیضلت ہے، یہ اللہ کے قرب و محبت کی نشانی ہے.جس کو اللہ کا قرب درکار ہو اسے چاہئے کہ وہ صبر کا دامن تھام لے. صبر آدھی طریقت ہے. اس کو آدھا ایمان بھی کہا گیا ہے. انسان کو زندگی کے ہر معاملے میں صبر کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہمیشہ دو طرح کے ہی معاملات ہو رہے ہوتے ہیں، یا تو اس کی پسند کیمطابق یا پھر اس کی پسند کے مخالف، یہی کل زندگی کا معاملہ ہے. اور دونوں حالتون میں ہی صبر کرنا ہوتا ہے.

پسندیدہ معاملہ میں صبر یہ ہے جب کوئی نعمت و عطا حاصل ہو تو اس سے وہ غفلت کا شکار نہ ہو. اپنا دل اس میں نہ پھنسائے، بزرگان طریقت فرماتے ہیں کہ رنج و سختی میں ہر کوئی صبر کرتا ہے پر خیر و عافیت میں صبر کرنا یہ صدیقوں کا مقام ہے. اللہ نے اپنی آزمائش کا بتایا کہ ہم نعمت کے فراوانی سے بھی آزمائیں گے، یعنی مال، اولاد وغیرہ، اس میں زیادتی کرکے بھی آزمایا جاتا ہے. تو جب اچھے حالات ہوں، سب خیر ہی خیر ہو تب بھی بندہ صبر کو قائم رکھے اور خود کو غفلت میں پڑنے سے بچائے رکھے، یہی صبر ہے. اور اس صبر کی نشانی اللہ سے رجوع کرنا، تعلق رکھنا اور شکر میں رہنا ہے. دوسرا صبر ناپسندیدہ معاملات میں ہوتا ہے اور اس کی تین صورتیں ہوتی ہیں. اول جس کی اصل انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ ثابت قدمی کیساتھ بندگی اختیار کرے اور اس بندگی کے دوران جو معاملات ہورہے ہیں

ان پر صبر کرے، اور اپنی بندگی میں استقامت پیدا کرے، یہ نیکی پر صبر کہلاتا ہے کہ بندہ نیک معاملات میں مستقل مزاجی کیساتھ چل رہا ہوتا ہے. اور گناہوں پر صبر کرے کہ خود کو گناہوں سے روکے، خواہشات پر صبر کرے، گناہوں سے باز رہے اور رکا رہے. دوسرا وہ جس کی اصل بندے کے اختیار میں نہیں پر اس کا دفع کرنا انسانی اختیار میں ہے. جیسے دوسروں کی طرف سے ملنے والی اذیت اور تکالیف، ان پر صبر سے مراد درگزر کردینا یا پھر بدلہ لیتے ہوئے حد سے نہ بڑھنا، اور اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.

اور تیسرا صبر سب سے افضل ہے، اس کا اول اور آخر بندے کے اختیار میں نہیں. وہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ملنے والی مصیبت و بلا پر صبر کیا جائے. جیسے بیماری، موت، تنگی و سختی وغیرہ، اس کا اجر خود اللہ ہے، اس حالت میں صبر اللہ پر یقین و محبت سے حاصل ہوتا ہے جس کا جتنا اللہ پر یقین مضبوط ہوتا ہے وہ اتنا زیادہ صابر ہوتا ہے اور پھر جیسے محبت بڑھتی جاتی ہے صبر مضبوط ہوتا جاتا ہے. مسافرانِ طریقت صبر سے وابستہ رہتے ہیں، وہ صبر کو عزیز رکھتے ہیں. یہ اللہ کی محبوب صفت ہے. جو بندے اس صفت کو اپنا لیتے ہیں وہ اللہ کے محبوب بن جاتے ہیں. صابر بندے پر حقیقت آشکار ہوجاتی ہے. وہ عرفان میں داخل ہوجاتا ہے اور اسے اللہ کے امر کی پہچان عطا ہوجاتی ہے. راز منکشف ہو جاتے ہیں. محجوبُ الکشف ہوجاتا ہے. صابر کا تعلق صبور سے قائم ہوجاتا ہے.
اللہ مجھے اور میرے اہل و عیال اور برادران و ہمشیراگان سمیت ہم سب امت مسلمہ کو صبر کی توفیق عطا فرمائے. آمین یا رب العالمین ۔۔۔۔۔!!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button